## Pyaar Ki Aag Mein (In the Fire of Love) - ایک پاکستانی ڈرامائی محبت - .

Latest

.

Sunday, June 8, 2025

## Pyaar Ki Aag Mein (In the Fire of Love) - ایک پاکستانی ڈرامائی محبت

 ## Pyaar Ki Aag Mein (In the Fire of Love) - ایک پاکستانی ڈرامائی محبت



**میہک** (Mehak) کی زندگی چمکتے سنگِ مرمر کے فرش پر بھی ایک سنہری پنجرے جیسی تھی۔ دولت کی چمک تھی، ماں (**امی جان**) باپ (**ابو جان**) کا پیار تھا، مگر ایک کار حادثے نے اس کی جوانی کو اس پہیوں والی کرسی (**ویل چیئر**) تک محدود کر دیا تھا۔ باہر کی دنیا اس کی آنکھوں میں بستی تھی، پر نکلنا مشکل تھا۔ پھر **علی** (Ali) آیا – ان کا نیا ڈرائیور، چوکیدار، اور اس دنیا تک اس کی کڑی۔


علی، سادہ کپڑوں میں مگر سیدھے کھڑے، اس کی آنکھوں میں ایک گہرا سمندر چھپا تھا۔ وہ صرف گاڑی نہیں چلاتا تھا۔ جب بھی میہک کو باہر جانا ہوتا، علی بغیر کچھ کہے آتا، ہلکے سے مسکراتا، اور پہیوں والی کرسی کو نرمی سے اٹھا کر گاڑی میں بٹھا دیتا۔ اس کے ہاتھ مضبوط تھے، مگر چھونے میں نرمی تھی، جیسے وہ کسی نازک پھول کو چھو رہا ہو۔ میہک کو اس کی خاموشی میں ایک سہارا ملنے لگا۔


ایک دن، شدید بارش ہو رہی تھی۔ علی میہک کو کالج سے گھر لے جا رہا تھا۔ سڑک پر اچانک ایک گڑھا آ گیا، گاڑی جھٹکا کھا کر رک گئی۔ میہک کا سر پچھلی سیٹ سے ٹکرا گیا، درد سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ علی فوراً گاڑی روک کر پیچھے مڑا۔ اس کی آنکھوں میں ایک ایسی پریشانی تھی جو محض نوکری کی ذمہ داری سے آگے تھی۔


"میہک بی بی... آپ ٹھیک ہیں؟" اس کی آواز میں گھبراہٹ تھی، ہلکی سی کپکپی۔ بغیر سوچے اس نے اپنا رومال نکال کر میہک کے ماتھے پر لگے ہلکے سے زخم کو صاف کرنے لگا۔ اس لمحے ان کی انگلیوں کا اچانک سہارا... میہک نے اپنا ہاتھ علی کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں گم ہو گئے۔ گاڑی کے اندر صرف بارش کے قطرے کھڑکیوں پر پڑنے کی آواز اور دونوں دلوں کی تیز دھڑکنیں سنائی دے رہی تھیں۔ کچھ بولے بغیر، سانس رُکے بغیر، ایک خاموش اقرار ہو گیا۔ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والا ایک سوال، ایک جواب۔ علی نے فوراً ہاتھ کھینچ لیا، جیسے کوئی آگ چھو لی ہو۔ "معاف کیجیے گا، بی بی..." اس کی آواز پست تھی، شرم سے سر جھکا ہوا۔ میہک کا دل ایک عجیب سی مٹھاس اور کسک سے بھر گیا۔


اس دن کے بعد کچھ بدل گیا۔ علی کا رویہ اور بھی محتاط ہو گیا، مگر میہک کی نظریں اب اسے چُھپ چُھپ کر تلاش کرتی تھیں۔ وہ اس کی گاڑی صاف کرتے دیکھتی، دروازے پر کھڑے موسم کا جائزہ لیتے دیکھتی۔ علی کے چہرے پر جو ہلکی سی مسکراہٹ ابھرتی جب وہ اسے دیکھتا، وہ میہک کے لیے سورج کی پہلی کرن بن جاتی۔ ایک خاموش رقص شروع ہو گیا – آنکھوں کی باتیں، ہونٹوں پر ادھ کھلی مسکراہٹیں، دل کی وہ دھڑکنیں جو صرف ایک دوسرے کی موجودگی میں تیز ہو جاتیں۔ میہک جانتے تھے یہ محبت ناممکن ہے۔ امی جان، ابو جان، معاشرہ... سب اسے کبھی قبول نہیں کریں گے۔ علی ایک نوکر تھا، وہ مالک کی بیٹی۔ پھر بھی... کیا دل کبھی عقل کی بات سنتا ہے؟


ایک شام، میہک کی چچی (**خالہ جان**) نے کچھ دیکھ لیا۔ جب علی میہک کو باغ میں ٹہلانے لے گیا تو وہ چھپ کر دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے میہک کی نظروں میں وہ چمک دیکھی، علی کے رویے میں وہ نرمی۔ فوراً امی جان کو خبر کر دی۔ گھر میں طوفان کھڑا ہو گیا۔


امی جان کا چہرہ غصے سے سرخ تھا۔ "میہک! یہ کیا بے ہودہ حرکت ہے؟ ایک ڈرائیور؟ تمہیں شرم نہیں آتی؟ تمہارے باپ نے اسے نوکری دی، تم نے اسے اپنا دل دے دیا؟"


ابو جان سخت، مگر دل شکستہ۔ "بیٹی... یہ غلط ہے۔ تمہیں اپنی حیثیت یاد دلانی پڑے گی؟ علی کل سے نوکری پر نہیں آئے گا۔ ہم نے اسے برطرف کر دیا ہے۔"


یہ سنتے ہی میہک کا دنیا تاریک ہو گئی۔ جیسے اس کا سہارا، اس کی ہوا چھین لی گئی ہو۔ آنسو رُک نہ سکے۔ "امی... ابو... وہ صرف ڈرائیور نہیں ہے! وہ... وہ میرا سب کچھ ہے۔ اس نے مجھے زندہ رہنا سکھایا، اس پنجرے سے باہر دیکھنا سکھایا!" لیکن والدین کے فیصلے پر کوئی آنسو اثر نہ کر سکا۔


علی چلا گیا۔ بغیر کسی آخری ملاقات، بغیر کسی الوداع کے۔ میہک کی دنیا خالی ہو گئی۔ پہیوں والی کرسی اب مزید بھاری لگنے لگی۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھتی، ہر گاڑی کی آواز پر دل دھڑک اٹھتا، کہیں وہ واپس تو نہیں آ رہا؟ مگر وہ نہیں آیا۔ دن گزرتے گئے، میہک مرجھاتی گئی۔ جسم وہیں تھا، پر روح کہیں گم ہو چکی تھی۔


پھر ایک دن، تقریباً دو ماہ بعد، دروازے کی گھنٹی بجی۔ نوکر نے دروازہ کھولا۔ سامنے علی کھڑا تھا۔ مگر وہ علی نہیں تھا جو چلا گیا تھا۔ اس کے کپڑے سادہ مگر صاف تھے، چہرے پر تھکاوٹ تھی مگر آنکھوں میں ایک نیا عزم چمک رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا کاروباری کارڈ تھا – ایک چھوٹی ٹرانسپورٹ کمپنی کا نام لکھا تھا۔


امی جان اور ابو جان آگے آئے، حیران اور محتاط۔ علی نے ادب سے سر جھکایا۔ "صاحب، صاحبہ... معاف کیجیے گا اگر بے تکلفی ہوئی۔ مگر... مگر میں میہک بی بی سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ صرف ایک بار۔"


میہک، جو کمرے میں سن رہی تھی، اپنی کرسی خود ہنکا کر باہر آ گئی۔ اس کا دل منہ کو آ رہا تھا۔ علی نے اسے دیکھا، اور اس کی آنکھیں بھر آئیں۔


ابو جان سخت لہجے میں بولے: "علی، تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔"


علی نے بہادری سے جواب دیا، میہک کی طرف دیکھتے ہوئے: "صاحب، میں جانتا ہوں میں غریب ہوں، میں نوکر تھا۔ مگر جب سے میں گیا ہوں، میں نے دن رات ایک کر دیے۔ میں نے اپنی چھوٹی سی گاڑی خریدی، اپنا چھوٹا سا کام شروع کیا۔ میں امیر نہیں ہوا، صاحب۔ لیکن اب میں صرف ایک نوکر نہیں ہوں۔ میں ایک محنت کش آدمی ہوں جو اپنی محنت کی روٹی کھاتا ہے۔" اس کی آواز جذبات سے کانپ رہی تھی۔


میہک کی سانس رک گئی۔ علی نے براہِ راست میہک کی آنکھوں میں دیکھا، جیسے پوری دنیا غائب ہو گئی ہو۔ "میہک... بی بی... معاف کر دینا اگر میں گستاخی کر رہا ہوں۔ مگر وہ دن، وہ بارش کا دن... جب آپ نے میرا ہاتھ تھاما تھا... وہ میرا ہاتھ آج تک تھامے ہوئے ہے۔ آپ کے بغیر یہ دو مہینے... ہر لمحہ عذاب تھا۔ میں آپ کے والدین کا احترم کرتا ہوں۔ میں آپ کی حیثیت جانتا ہوں۔ مگر کیا حیثیت... کیا پہیوں والی کرسی... کیا میرا گزر بسر... کچھ بھی اس بات کو بدل سکتا ہے کہ میرا دل، میری سانس، میری ہر خوشی آپ کے نام ہو چکی ہے؟ میں صرف یہ کہنے آیا تھا... میں آپ سے پیار کرتا ہوں، میہک۔ سچا، پکا، بے لوث پیار۔ اگر آپ مجھے صرف دور سے دیکھنے کی اجازت دے دیں... اگر میں آپ کی ویل چیئر کو دھکا دینے کا اعزاز پا سکوں... بس یہی میری جنت ہوگی۔"


خاموشی چھا گئی۔ امی جان کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ ابو جان کے چہرے پر حیرت اور کچھ نرمی آ گئی۔ میہک کے لیے تو دنیا ہی رک گئی تھی۔ وہ سچ بول رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وہی سچائی تھی جو بارش والے دن دیکھی تھی۔ اس نے اپنی ویل چیئر کو آگے بڑھایا، آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ:


"علی... تم نے کبھی نوکر نہیں ہو۔ تم تو وہ ہو جس نے مجھے چلنا سکھایا... دل سے۔ تمہارے بغیر یہ پہیے بے کار تھے۔ آؤ... اب تمہیں دور نہیں جانے دوں گی۔" اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔


علی نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر، میہک کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا، جیسے کوئی انمول تحفہ ہو۔ اس کی پیشانی پر آنسوؤں کے قطرے چمک رہے تھے۔ درمیان میں پہیوں والی کرسی تھی، پر دونوں دلوں کے درمیان اب کوئی فاصلہ نہیں تھا۔ سچا پیار کبھی رُکاوٹوں کو نہیں دیکھتا، وہ تو صرف دل کی زبان سمجھتا ہے۔ اور یہاں، دو ٹوٹے ہوئے دلوں نے ایک دوسرے میں اپنا سکون، اپنا گھر پا لیا تھا۔ ❤️

No comments:

Post a Comment