بھاگی ہوئی دلہن (Bhagi Hui Dulhan) - ایک پاکستانی محبت کی داستان
**سارہ** (Sara) کا گھر چاندی کے کڑوں اور گلابی گلابوں
سے سج چکا تھا۔ آج اس کی شادی تھی - ایک "بہترین رشتہ" جو اس کے والدین نے چن لیا تھا۔ دولہا امیر تھا، خاندان معزز... مگر سارہ کا دل ایک سوال سے ٹوٹ رہا تھا: *"کیا دولت اور حیثیت ہی سچی خوشی کا نام ہے؟"* جب دولہے (**عارف**) نے شادی ہال میں اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے اپنے دوست سے کہا - *"دیکھو، آخرکار اس شو پِیس کو ٹیم میں شامل کر ہی لیا!"* - تو سارہ کا صبر جواب دے گیا۔ دلہن کا گہنا لباس پہنے، بھاری جوڑے میں سجی، وہ اچانک دوڑ پڑی۔ شادی کی گونجتی ہوئی شہنائیوں اور حیران مہمانوں کو پیچھے چھوڑ کر...
بارش زوروں پر تھی جب وہ ایک چھوٹے سے ریستوران (**"دیسی ذائقہ"**) کے سائبان تلے پناہ لینے لگی۔ ساڑی بھیگ چکی تھی، میک اپ بہہ رہا تھا، اور سارہ کے جسم میں کپکپی سی تھی۔ **کاشف** (Kashif) - ریستوران کا ویٹر - جب باہر نکلا تو اس نے ایک پریشان کنیاری کو دیکھا جو بارش میں کانپ رہی تھی۔ بغیر کچھ پوچھے، وہ اندر لے گیا، ایک گرم تولیہ لاکر دیا، اور چائے کا کپ اس کے ٹھنڈے ہاتھوں میں تھما دیا۔
*"پہلے چائے پیجیے... ٹھنڈ لگ جائے گی۔"*
کاشف کی آواز میں ایک سکون تھا جو سارہ نے کبھی محسوس نہ کیا تھا۔
رات گزرتی گئی۔ سارہ نے اپنا راز کھولا - جبری شادی، دولہے کی بے حِسی، اپنی بے بسی۔ کاشف نے خاموشی سے سُنا۔ اس کی آنکھوں میں ہمدردی کے ساتھ ایک عجیب سی چمک تھی۔ وہ بھی ایک خواب لیے جی رہا تھا - آرٹ کی تعلیم کے لیے وظیفہ حاصل کرنے کا خواب - جو غربت کی چکی میں پس رہا تھا۔
سارہ نے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ریستوران کے اوپر کاشف کا چھوٹا سا کمرہ تھا، جہاں سارہ نے پناہ لی۔ دن گزرتے گئے۔ سارہ نے سادہ سلور قمیض پہننا سیکھی، کاشف کو ریستوران میں آٹے کے ڈونٹس (**پائے**) بناتے دیکھا، اور راتوں کو چھت پر بیٹھ کر اس کے خوابوں کی کہانیاں سُنی۔ کاشف کے ہاتھوں میں چائے کے کپ تھماتے ہوئے، انگلیوں کا اچانک چھو جانا... چھت پر چاندنی میں خاموشی کے لمحات... دونوں کے دل ایک دھیمے راگ پر ڈولنے لگے۔ ایک دن، جب سارہ نے کاشف کے لیے چائے بنائی تو اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ کاشف نے کپ سنبھالتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا:
*"ڈرو مت سارہ... میں تمہارے ساتھ ہوں۔"*
اس لمحے، بارش والی رات کی ٹھنڈک مٹ گئی۔ دونوں جانتے تھے کہ یہ محبت سماج کی نظر میں "غیر" ہے۔ ویٹر اور نوابی۔ مگر دل نے پوچھا: *کیا حیثیت پیار کا پیمانہ ہو سکتی ہے؟*
پھر وہ دن آیا جب سارہ کا بھائی (**طارق**) اور والد (**سجاد صاحب**) گاڑیوں کا قافلہ لے کر "دیسی ذائقہ" پہنچے۔ سجاد صاحب کا چہرہ غصے سے تپ رہا تھا:
*"یہ کیا بے غیرتی ہے؟ میری بیٹی ایک ویٹر کے ساتھ؟ تم نے خاندان کی عزت مٹی میں ملا دی! فوراً گھر واپس چلو!"*
سارہ نے کاشف کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف نہیں، عزم تھا:
*"ابا... یہ صرف ویٹر نہیں ہے۔ یہ وہ ہے جس نے میرے ٹوٹے ہوئے دل کو سہارا دیا۔ جس نے مجھے عزت دی۔ میں واپس نہیں آؤں گی۔"*
سجاد صاحب کا غصہ آگ بن گیا:
*"تو رہو اس غریب کے ساتھ! لیکن یاد رکھو، میری بیٹی اب مر چکی ہے۔ تمہارا میرے گھر سے کوئی تعلق نہیں!"*
وقت گزرا۔ سارہ نے ایک چھوٹے اسکول میں پڑھانا شروع کیا۔ کاشف دن میں ویٹر کا کام کرتا، رات کو آرٹ کے لیے پڑھتا۔ رہنے کو ایک کمرہ، کھانے کو سادہ روٹی... مگر ان کی آنکھوں میں چمک تھی۔ ایک دن، کاشف کا فن کالج نے سراہا - اسے وظیفہ مل گیا! وہ رات جب کاشف نے سارہ کو اپنا پہلا کمیشن ملنے کی خوشخبری سنائی، تو سارہ کے آنسو رُک نہ سکے:
*"میں جانتا تھا تمہارا ہاتھ قسمت بدل دے گا کاشف!"*
ایک سال بعد، لاہور کی ایک مشہور آرٹ گیلری میں **"انسانی جذبات"** نامی نمائش لگ رہی تھی۔ تمام شہر کے معززین وہاں موجود تھے۔ مرکزی تصویر ایک بھاگتی ہوئی دلہن کی تھی - بارش میں بھیگی، آنکھوں میں خوف اور امید کے ملے جلے جذبات... تصویر کا نام تھا: **"میری آزادی"**۔
سجاد صاحب اور ان کی بیوی بھی وہاں تھے، حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ اچانک ایک نوجوان فنکار اسٹیج پر آیا۔ یہ کاشف تھا! اس نے مائیک سنبھالا:
*"یہ تصویر میری بیوی سارہ کی ہے۔ جس نے سماج کے ڈر کو توڑ کر میرا ساتھ دیا۔ جو میرے خوابوں کی محافظ بنی۔ آج میں اس کے سامنے اپنا دل رکھنا چاہتا ہوں..."*
یہ کہتے ہوئے وہ نیچے اترا جہاں سارہ کھڑی تھی۔ کاشف نے اپنی پہلی فروخت ہونے والی پینٹنگ کی رقم کا چیک سارہ کی طرف بڑھایا:
*"یہ رقم تمہارے خواب پورے کرنے کے لیے ہے۔ تم نے مجھ پر یقین کیا... آج میں تمہیں وہ دنیا دکھانا چاہتا ہوں جس کا تم خواب دیکھتی تھیں۔"*
سارہ کے آنسو بہہ نکلے۔ پیچھے سے سجاد صاحب آگے بڑھے۔ ان کی آنکھیں نم تھیں، آواز میں پچھتاوا تھا:
*"بیٹا... معاف کر دینا۔ ہم نے تمہاری خوشی کو سمجھا نہیں۔ کاشف... تم نے میری بیٹی کو وہ عزت دی جو میں نہ دے سکا۔"*
کاشف نے ادب سے جھک کر سجاد صاحب کے ہاتھ چومے۔ سارہ نے اپنے والد کو گلے لگا لیا۔ گیلری میں تالیاں گونج اٹھیں۔ وہ لمحہ جب سارہ نے اپنی بھاگتی ہوئی تصویر کو دیکھا، تو اسے احساس ہوا:
*سچی محبت بھاگنے سے نہیں ملتی... وہ تو اس ہمت میں ملتی ہے جو تم اپنے دل کی سننے کے لیے کرتے ہو۔*
اور کاشف... جس کے ہاتھ میں پہلے صرف چائے کے کپ تھے، آج وہی ہاتھ سارہ کی تقدیر بن چکے تھے۔ 💖
> *"پیار دروازے نہیں دیکھتا، وہ تو دل کی زبان پہچانتا ہے۔ چاہے وہ دل چھوٹے سے ریستوران کے کونے میں کیوں نہ دھڑک رہا ہو۔"*
No comments:
Post a Comment