چڑیا اور چھوٹی سی معصومیت - .

Latest

.

Saturday, May 31, 2025

چڑیا اور چھوٹی سی معصومیت

  

**جگہ کا نام: مہتاب نگر**  


دس سالہ زینب کی آنکھوں میں چڑیوں کے لیے ایک عجیب سی محبت تھی۔ اس کے غریب گھر کے آنگن میں جب بھی کوئی زخمی پرندہ گرتا، وہ اپنی جیب خرچ کی ساری پونجی لگا کر اس کا علاج کرواتی۔ اُس دن بھی وہ بازار سے دو چڑیاں لے کر چمکتی ہوئی واپس آ رہی تھی۔ ایک سفید گلے والی چڑیا جسے وہ "مون" کہتی تھی، اور دوسری سنہری پر والی "سورج"۔  



راستے میں ہی ایک کھدرے رنگ کی وردی پہنے افسر—سب انہیں "انسپیکٹر فیروز" کہتے تھے—نے زینب کو روک لیا۔ اس کی آنکھوں میں وہ چمک تھی جو صرف طاقت کے نشے میں دھت لوگوں کی ہوتی ہے۔  


"یہ کیا لے جا رہی ہو؟ چوری کی چڑیاں ہیں نا؟" فیروز نے زینب کا ہاتھ جھٹکا، اور "مون" کو پنجے میں جکڑ لیا۔ چڑیا کی چِہچِہاہٹ پر زینب کی آنکھیں نم ہو گئیں۔  


"سر، یہ میری ہیں! میں نے بازار سے خریدی ہیں!" زینب نے گڑگڑاتے ہوئے کہا، مگر فیروز نے اس کے گال پر تھپڑ رسید کر دیا۔ "جھوٹی! تجھ جیسے غریب کے پاس ایسی نایاب چڑیا کیسے آ سکتی ہے؟"  


پل بھر میں زینب کے والدین—ایک ریڑھی چلانے والے حامد اور کچہری میں صفائی کرنے والی فاطمہ—وہاں پہنچ گئے۔ فیروز نے غرّاتے ہوئے حکم دیا: "پانچ ہزار جرمانہ دو، ورنہ بیٹی کو جیل بھجوا دوں گا!"  


فاطمہ گھٹنوں پر گر گئی: "حضور، ہم غریب لوگ ہیں۔ مہینے بھر کی کمائی ہے یہ!" مگر فیروز نے "مون" کو جھولے میں بند کرتے ہوئے اُنہیں دھکا دے کر باہر نکال دیا۔  


**وہ موڑ جب سب کچھ پلٹ گیا...**  


اگلے ہی دن، مہتاب نگر میں ایک عجیب ہلچل مچی۔ شہر کے سب سے طاقتور شخص—جسے لوگ "جنابِ وزیر" کہتے تھے—کا قافلہ فیروز کے گھر کے سامنے رُکا۔ وزیر کی بیٹی، جو وہیل چیئر پر تھی، نے فیروز کے جھولے میں چڑیا دیکھتے ہی چیخ ماری:  

"بابا! یہ تو میری 'سپنا' ہے! میں نے کل ہی اسے ریسکیو سینٹر سے اُڑایا تھا!"  


پتہ چلا کہ "مون" دراصل وزیر کی معذور بیٹی کی تربیت یافتہ چڑیا تھی، جس کے پروں میں چِپ لگی تھی۔ فیروز جب اسے اُٹھا کر لے جا رہا تھا، تو چِپ نے وزیر کو ٹریک کر لیا تھا۔  


فیروز کو اسی وقت گھسیٹ کر لے جایا گیا۔ زینب جب اگلے دن آنگن میں بیٹھی رو رہی تھی، تو وزیر خود "سپنا" کو سونے کے پنجرے میں لے کر آیا۔ اس نے زینب کے سر پر ہاتھ رکھا:  

"تم نے میری بیٹی کا سب سے قیمتی ساتھی بچایا۔ اب سے تمہاری تعلیم اور گھر کی ذمہ داری میری ہے۔"  


پھر اس نے فیروز کی طرف اشارہ کیا، جو ہتھکڑیوں میں کانپ رہا تھا:  

"اور تمہیں معلوم ہے؟ یہ وہی شخص ہے جس نے سالوں پہلے میرے حادثے کا بندوبست کیا تھا... صرف اس لیے کہ میں نے اس کی رشوت خوری کی رپورٹ کی تھی۔"  


زینب نے "مون" کو پنجرے سے نکال کر آسمان کی طرف اُچھالا۔ پرندہ آزاد ہوا، اور فیروز کی ہچکیاں بھرتی سسکیاں... اُس دن مہتاب نگر میں انصاف کا سورج پہلی بار نکلا تھا۔  


 کہانی کا سبق:  

**"ظالم کا انجام تاریک ہوتا ہے، اور معصومیت کی پکار ہمیشہ خدا تک پہنچتی ہے۔

No comments:

Post a Comment