ایک چھوٹے سے شہر میں آمنہ نام کی ایک پروفیسر رہتیں تھیں۔ آمنہ کو تعلیم دینا بہت پسند تھا اور وہ یونیورسٹی میں دونوں لڑکوں اور لڑکیوں کو پڑھاتی تھیں۔ ان کی ایک خاص مہارت یہ بھی تھی کہ وہ بہت اچھی کیک بنانے والی تھیں، جس کا علم بہت کم لوگوں کو تھا۔
ہر رات آمنہ اپنے چھوٹے سے کچن میں بیٹھ کر خوشبو دار مٹھائیاں تیار کرتیں۔ ان کی سب سے پسندیدہ ترکیب "بہار کا کیک" تھی، جو خاص طور پر دیسی اجزاء سے بنتا تھا۔ آمنہ اکثر یہ سوچ کر ہنستی تھیں کہ کس طرح لوگ صبح کے وقت ان کی کیک کی خوبصورتی کو حیرت سے دیکھتے تھے۔
صباح ہوتے ہی آمنہ یونیورسٹی میں اپنے طلباء کو پڑھانے کے لیے چلی جاتیں۔ وہ صرف علم نہیں دیتیں بلکہ انہیں خود اعتمادی اور خود انحصاری کی اہمیت بھی سکھاتی تھیں۔ آمنہ ہمیشہ کہا کرتی تھیں، "کسی بھی خواب کو پورا کرنے کے لیے محنت اور لگن اہم ہیں۔" ان کے طلباء، خاص طور پر لڑکیاں، آمنہ کی مثال لے کر اپنی زندگیوں میں آگے بڑھنے لگیں۔
آمنہ نے ایک دن فیصلہ کیا کہ وہ اپنے علم اور مہارت کا ملاپ کریں گی۔ انہوں نے یونیورسٹی میں ایک "بیکنگ کلاس" کا آغاز کیا۔ اس کلاس میں طلباء کو کیک بنانا سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کو کاروبار شروع کرنے کے بنیادی اصول بھی بتائے۔ آمنہ کی باتوں نے طلباء کے دلوں میں خود اعتمادی بھردی۔
ایک رات، جب آمنہ نے ایک خاص کیک تیار کیا، تو انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ یہ کیک اپنے طلباء کے ساتھ تقسیم کیا جائے۔ انہوں نے نرمی سے سارا کام کیا، اور صبح کو کیک کو خوبصورتی سے سجا کر یونیورسٹی لے گئیں۔
جب طلباء نے کیک دیکھا تو ان کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ آمنہ نے انہیں بتایا کہ یہ کیک ان کی محنت کی علامت ہے۔ انہوں نے کہا، "دیکھو، میں نے یہ کیک محنت سے بنایا ہے۔ تم بھی اپنی محنت سے کچھ بہترین چیزیں حاصل کر سکتے ہو۔"
طلباء نے آمنہ کی خصوصیات اپنائیں، اور بہت ساری لڑکیاں اور لڑکوں نے مستقبل میں اپنے کاروبار شروع کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ آمنہ نے اپنی محنت اور لگن سے کئی طلباء کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں مدد کی، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی مٹھاس بھی دنیا کے ساتھ بانٹ دی۔
اسی طرح پروفیسر آمنہ، رات کی خوشبو اور صبح کی روشنی کو ملا کر ایک نئی دنیا کی بنیاد رکھ رہی تھیں، جہاں ہر طالب علم خود اعتمادی کے ساتھ اپنے خوابوں کی تعبیر کر سکتا تھا۔
آمنہ کی کہانی نے شہر کے ہر نوجوان کو یہ سکھایا کہ خوابوں کی تعبیر صرف محنت اور لگن سے ممکن ہے، اور وہ خود اپنے مقدر کی معمار ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہر کیک کے ساتھ، ایک نئی امید بھی پیدا ہو رہی ہے۔
**ختم**
No comments:
Post a Comment