مٹھاس کا سفر - .

Latest

.

Tuesday, May 27, 2025

مٹھاس کا سفر


 


رحمت پور کی تنگ گلیوں میں جہاں کباب کی خوشبو اور چائے کے کھوکھوں کی چہل پہل تھی، ایک جھونپڑی میں بارہ سالہ ارمان اپنی چھوٹی بہن زارا کے ساتھ ناریل پیس رہا تھا۔ باپ کی طویل علالت نے گھر کی کمر توڑ دی تھی۔ ماں کے ہاتھ سوئی دھاگے سے کب کے سُن ہو چکے تھے۔ ارمان نے اسکول چھوڑا، دادی کے دیے ہوئے "بڑفی" کے نسخے کو اپنا ہتھیار بنا لیا۔  


ہر صبح، وہ گھر کے ٹوٹے ہوئے چولہے پر دودھ کو کڑاہی میں چڑھاتا۔ زارا چینی ڈالتی، اور ارمان ہاتھوں سے ناریل کی مٹھاس گوندھتا۔ مگر بازار کے نئے میٹھے کے دکانوں کے سامنے ان کے اخبار کے مخروط بےروزگار پڑے رہتے۔  


**موڑ کی گھڑی:**  

ایک دن دوپہر کی تپتی دھوپ میں، ارمان نے دیکھا کہ حاجی صاحب، بازار کے سب سے بڑے دکاندار، چھاؤں میں گر پڑے ہیں۔ لوگ تماشا دیکھنے لگے، مگر ارمان نے اپنا اسکارف تر کر کے حاجی صاحب کے ماتھے پر رکھا۔ پانی پلایا۔ جب حاجی صاحب ہوش میں آئے تو انہوں نے ارمان کی مٹھی میں چھالیاں دیکھیں۔  


"بیٹا، تمہاری بڑفی کیوں نہیں بکتی؟" حاجی صاحب نے گھڑی کی ٹک ٹک کے درمیان پوچھا۔  

"لوگ کہتے ہیں... پرانی چیز ہے۔" ارمان نے آنکھیں نیچی کر لیں۔  

حاجی صاحب نے مسکرا کر اپنی تجوری کھولی۔ ایک زعفران کی ڈبیہ نکالی۔ "کل سے میری دکان کے سامنے بیٹھو۔ یہ ڈالو اپنی بڑفی میں۔ مٹھاس صرف چینی سے نہیں... حوصلے سے بنتی ہے۔"  


**چمک:**  

ارمان نے زعفران کی سنہری لکیروں والی "کیشر بڑفی" بنائی۔ حاجی صاحب نے اپنے گاہکوں کو چکھایا۔ ایک ہی دن میں خبر پھیل گئی: "ننھے شیف کی مٹھاس میں دلوں کا علاج ہے!" ایڈ کی رات، ارمان کا سٹال جگمگا اٹھا۔ ایک شہر سے آئے فوڈ بلاگر نے اس کی کہانی ٹویٹ کی۔ فون گھنٹی بجنے لگا: "دلی سے آرڈر ہے! لاہور سے  ہے!"  


**اختتام:**  

آج رحمت پور کی گلی میں ارمان کی نئی دکان ہے۔ باپ کا علاج ہو رہا ہے، ماں کے ہاتھوں میں رنگ واپس آیا ہے۔ حاجی صاحب اکثر کہتے ہیں: "بیٹا، تم نے مٹھاس سے نہ صرف گھر بلکہ پورے قصبے کی قسمت بدل دی۔"  

اور ارمان جب بڑفی بناتا ہے تو زارا سے کہتا ہے:  

"دیکھو، ہر میٹھا ٹکڑا... اُس دن کی یاد دلاتا ہے جب ہم نے ہار نہیں مانی تھی۔"  


**❝کچھ میٹھا کھاؤ، کچھ میٹھا بنا دو۔❞**

No comments:

Post a Comment